میں کیا کہ رہا تھا؟ : ن م راشد
میں تنہائی میں کر رہا تھا
پرندوں سے باتیں
میں یہ کہ رہا تھا؛
پرندو، نئی حمد گاؤ
کہ وہ بول جو اک زمانے میں
بھونروں کی بانہہ پہ اُڑتے ہوئے
باغ کے آخری موسموں تک پہنچتے تھے
اب راستوں میں جھلسنے لگے ہیں
نئی حمد گاؤ
پرندے لگاتار، لیکن
پرندے ہمیشہ سے اپنے ہی عاشق
سراسر وہی آسماں چیختے تھے
میں یہ کہ رہا تھا
گنہ گار دل
کون جانے کہ کس ہاتھ نے
ہمیں اپنی یادوں کی لمبی قطاروں
کی زنجیر میں
کب سے بے دست و پا کر دیا ہے؟
وہ ماضی، کبھی ہانپتے تھے
جو گھوڑوں کے مانند
اب نافراموش گاری کے صحنوں میں
لنگڑا رہے ہیں
میں یہ کہ رہا تھا
میرے عشق کے سامنے
جنتری کے ورق
اب زیادہ نہ پلٹو
کہ یہ آئینوں کے طلسموں کے مانند
تاریخ کو بارہا رٹ چخی ہے
مگر دل کا تنہا پیمبر
کبھی اپنی تکرار کا ہمہمہ گائے
ممکن نہیں
کبھی اپنی ہی گونج بن جائے
ممکن نہیں
وہی میرے دل کا پیمبر
کہ جس نے دیا ایسا روشن کیا
کہ راتوں کی نیندیں اُچٹنے لگیں؛
وہ خود کو الٹ کر پلٹ کر پرکھنے لگیں
میں یہ کہ رہا تھا
درختوں، ہواؤں کو تم کھیل جانو
تو جانو
مگر ہم۔۔۔ نہیں جانتے بوڑھے سبزوں
کی دعوت کو جاتے ہوئے
ذہن کے رہگزاروں میں کیسے
نئے دن کی دزدیدہ آہٹ کبھی سُن سکیں گے؟
نہیں صرف پتھر ہی بے غم ہے پتھر کی ناتشنگی پر
درختو، ہوا کتنی تیزی سے گزری
تمہارے بدن سے
کہ اس میں روایات
سرگوشیاں کر رہی تھیں
درختو، بھلا کس لئے نام اپنا
کئی بار دہرا رہے ہو؟
یہ شیشم، یہ شم شی۔ یہ شی شی
مگر تم کبھی شی ی ی ر بھی کہ سکو گے؟
میں یہ کہ رہا تھا
——
SubhanAllah
پرندوں سے باتیں
میں یہ کہ رہا تھا؛
پرندو، نئی حمد گاؤ
کہ وہ بول جو اک زمانے میں
بھونروں کی بانہہ پہ اُڑتے ہوئے
باغ کے آخری موسموں تک پہنچتے تھے
اب راستوں میں جھلسنے لگے ہیں
نئی حمد گاؤ
پرندے لگاتار، لیکن
پرندے ہمیشہ سے اپنے ہی عاشق
سراسر وہی آسماں چیختے تھے
میں یہ کہ رہا تھا
گنہ گار دل
کون جانے کہ کس ہاتھ نے
ہمیں اپنی یادوں کی لمبی قطاروں
کی زنجیر میں
کب سے بے دست و پا کر دیا ہے؟
وہ ماضی، کبھی ہانپتے تھے
جو گھوڑوں کے مانند
اب نافراموش گاری کے صحنوں میں
لنگڑا رہے ہیں
میں یہ کہ رہا تھا
میرے عشق کے سامنے
جنتری کے ورق
اب زیادہ نہ پلٹو
کہ یہ آئینوں کے طلسموں کے مانند
تاریخ کو بارہا رٹ چخی ہے
مگر دل کا تنہا پیمبر
کبھی اپنی تکرار کا ہمہمہ گائے
ممکن نہیں
کبھی اپنی ہی گونج بن جائے
ممکن نہیں
وہی میرے دل کا پیمبر
کہ جس نے دیا ایسا روشن کیا
کہ راتوں کی نیندیں اُچٹنے لگیں؛
وہ خود کو الٹ کر پلٹ کر پرکھنے لگیں
میں یہ کہ رہا تھا
درختوں، ہواؤں کو تم کھیل جانو
تو جانو
مگر ہم۔۔۔ نہیں جانتے بوڑھے سبزوں
کی دعوت کو جاتے ہوئے
ذہن کے رہگزاروں میں کیسے
نئے دن کی دزدیدہ آہٹ کبھی سُن سکیں گے؟
نہیں صرف پتھر ہی بے غم ہے پتھر کی ناتشنگی پر
درختو، ہوا کتنی تیزی سے گزری
تمہارے بدن سے
کہ اس میں روایات
سرگوشیاں کر رہی تھیں
درختو، بھلا کس لئے نام اپنا
کئی بار دہرا رہے ہو؟
یہ شیشم، یہ شم شی۔ یہ شی شی
مگر تم کبھی شی ی ی ر بھی کہ سکو گے؟
میں یہ کہ رہا تھا
——
SubhanAllah
0 Comments